Virtual Position Forum
Please register to watch content in detail
Thanks
Admin virtual position


Join the forum, it's quick and easy

Virtual Position Forum
Please register to watch content in detail
Thanks
Admin virtual position
Virtual Position Forum
Would you like to react to this message? Create an account in a few clicks or log in to continue.

پاکستان کی داستانِ ہوش رُبا۔ پاکستان کبھی ایسا بھی ہوتا تھا

View previous topic View next topic Go down

GMT - 3 Hours پاکستان کی داستانِ ہوش رُبا۔ پاکستان کبھی ایسا بھی ہوتا تھا

Post by modi Sat Nov 02, 2013 12:40 pm



آج عوام کے ذہنوں میں اس پاکستان کے دھندلے سے نقوش ہیں جو سن اسی کی دہائی میں کھبی ہوا کرتا تھا۔ آج کے مقابلے میں وہ پاکستان ہمارے لئے کسی اجنبی سیارے کے برابر ہے۔
میں یہاں ایک آپ کو چند تاریخی تصاویرمیں شریک کرنا چاہتا ہوں جسے جمع کرنے میں کئ برس لگ گئے اور یہ تصاویر اس اجنبی ملک کی ہے جو پاکستان کہلاتا تھا۔
[You must be registered and logged in to see this image.]
انیس سو پچپن میں ہالی وڈ کے معروف اسٹارا سٹیورٹ گرینگر اور ایوا گارڈنر لاہور ائیرپورٹ آمد پر اپنے پرستاروں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے۔ وہ فلم ’بھوانی جنکشن ‘کے بعض حصوں کی عکسبندی کے لیے لاہور پہنچے تھے۔
[You must be registered and logged in to see this image.]
فلم ’بھوانی جنکشن ‘کا ایک منظر، جسے لاہور کے ایک تھانہ کے سامنے فلمایا گیا تھا۔
انیس سو ستاون میں کراچی کے میٹرو پول ہوٹل نائٹ کلب میں منعقدہ نیو ائیر پارٹی کی تقریب کے دوران رقص میں بے خود رقصاں جوڑا۔
انیس سو تریسٹھ کے روزنامہ مارننگ نیوز کی ایک خبر کا تراشا، جس میں بتایا گیا ہے کہ کراچی ائیرپورٹ پر بنے بار میں یورپ کے معروف پاپ موسیقی گروپ ’بیٹلز‘ کی آمد کی اطلاع پر پرستاروں کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔
بیٹلز گروپ کو کراچی سے ہانگ کانگ کے لیے رابطہ پرواز پکڑنی تھی۔ اس دوران وہ ڈرنک کے لیے بار میں چلے آئے تھے۔ سن ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں کراچی کا ائیرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ائیرپورٹس میں سے ایک تھا۔ تصویر: بشکریہ سمیع شاہ
سن ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں غیر ملکی سیاح کراچی کے ساحل پر غسلِ آفتابی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
امریکی سیاحوں کا ایک گروپ، جو کراچی کے ساحل پر تفریحاً کیکڑے پکڑنے آیا تھا۔’ کیکڑا گیری‘کراچی کی سیاحتی سرگرمیوں میں اہمیت کی حامل تھی۔ سیاح کیماڑی کے ساحل سے کشتیا ں کرائے پر لے کر سمندر میں کیکڑا گیری پر نکل جاتے تھے۔
کشتیاں کرائے پر فراہم کرنے والے بالعموم کراچی کے افریقی نژاد پاکستانی تھے۔ بعض کشتیوں میں چھوٹا سا باورچی خانہ، بار اور باربی کیو کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ وہ کشتیاں اب بھی ساحل پر ہیں مگر سیاح کوئی نہیں۔
انیس سو اکسٹھ میں ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم نے کراچی کا دورہ کیا۔ اپنے دورے کے دوران وہ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان سے مل رہی ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے پاکستان کے حکمران فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے ہمراہ بے چھت کی لیموزین گاڑی پر سوار ہو کر شہر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا تھا۔
انیس سو انہتر میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا حکومت کے حامی طلبہ تنظیم کے ساتھ کراچی میں تصادم کا ایک منظر۔1967 اور1968 کے دوران طلبہ اور مزدور تنظیموں کے احتجاج نے ایوب آمریت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
انیس سو اڑسٹھ کے آخری ایّام کی تصویر، سادہ لباس پولیس اہلکار طالب علم کو ایوب خان کی حمایت میں نکلنے والی ریلی پر گولی چلانے کے الزام میں دبوچ کر لے جارہے ہیں۔
ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں پاکستانی رسائل میں شائع شدہ ایک اشتہار، جس کے ذریعے پاکستان میں کنیڈین کلب وہسکی متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
یہ وہسکی شروع شروع میں صرف کراچی ہارس ریسنگ اینڈ پولو کلب المعروف ریس کورس میں دستیاب تھی۔ بعد ازاں اسے شہر کے دیگر بار میں بھی متعارف کرایا گیا
انیس سو ستر میں پاکستانی فوجی مشرقی پاکستان میں ایک مکتی باہنی کے کارکن کو دبوچ کر مارپیٹ اور ہراساں کرتے ہوئے۔
انیس سو اکہتر میں مغربی پاکستان کی فوج اور مشرقی پاکستان کے بنگالی قوم پرستوں (مکتی باہنی) کے درمیان خانہ جنگی کا ایک منظر۔
مشرقی پاکستان کے قوم پرستوں نے  بڑے پیمانے پر بنگالیوں کے قتلِ عام کا مرتکب قرار دیتے ہوئے، اُن کے خلاف ہتھیار اٹھالیے تھے۔ ہندوستان کی حمایت سے باغیوں نے مغربی پاکستان کی فوج کو شکست دی اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔
انیس سو اکہترمیں مشرقی پاکستان کی بندوق بردار خواتین کا دستہ ڈھاکا کی سڑکوں پر، مغربی پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور بنگالی قوم پرستوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مارچ کرتے ہوئے۔
پاکستتان کی قدیم ترین شراب ساز کمپنی مری بریوری کی جانب سے پہلی بار ملک میں ’ہلکی بئیر‘ متعارف کرانے کے موقع پر شائع کیا گیا اشتہاری پوسٹر۔
انیس سو بہتر کی ایک دلچسپ تصویر۔ پاکستانی مسافر افغان ٹیکسی پر لد کر طورخم پار افغانستان جارہے ہیں۔ ٹیکسیوں پر اس طرح لد کر،روزانہ ہزاروں باشندے سرحد پار کرکے تجارت کی غرض سے افغانستان جاتے تھے۔
بہت سے لوگ ان ٹیکسیوں کے ذریعے سنیماؤں میں لگی نئی ہندوستانی فلم دیکھنے کابل جاتے ۔ دن میں وہ فلم دیکھتے اوررات کو واپس اپنے گھروں کو لوٹ آتے تھے۔
انیس سو بہتر میں برطانوی، فرنچ اور امریکی نوجوان لڑکے لڑکیو ں پر مشتمل ایک گروپ لاہور میں بس کی آمد کا منتظر۔ پاکستان ہِپیّوں کا ایک اہم پڑاؤ تھا، جسے ’ہِپّی رہ گذر‘ کہا جاتا تھا۔
انیس سو ساٹھ  سے انیس سو اناسی  تک، ہزاروں کی تعداد میں یورپی اور امریکی نوجوان اس رہ گذر سے گزرا کرتے تھے۔ یہ ہِپیّوں کی وہ رہ گزر تھی جو ترکی سے شروع ہوتی، ایران سے گزرتی، خم کھا کر افغانستان میں داخل ہوتی، پاکستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچتی اور پھر اپنی آخری منزل نیپال پر پہنچ کردم لیتی تھی۔
انیس سو تہتر میں پاکستانی وزارتِ سیاحت کے شائع کردہ ایک بروشر کا عکس، جس میں ہوٹل، ریستوران، بارز اور ہِپّی رہ گزر پر واقع سیاحت کے لیے پُرکشش مقامات کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔
انیس سو چوہتر میں پاکستانی وزارتَِ سیاحت کی ایک بس مغربی سیاحوں کو کراچی کے قابلِ دید مقامات کی سیر پرلے جارہی ہے۔ اس طرح کی بسوں میں، ہِپیّوں کے ذوق کے مطابق ’سہولتوں‘ کا خیال رکھا جاتا تھا۔
انیس سو اڑسٹھ میں کراچی کے مشہور سنیما ’تاج محل‘ کا ایک بیرونی منظر۔ پاکستان کی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں، یہ شہر کے متعدد سنیما گھروں میں سے ایک تھا۔
 انیس سو پینسٹھ سے انیس سو ستترتک، پاکستانی فلمی صنعت ماہانہ درجنوں فلمیں بناتی تھی۔ فلم سازی کا یہ رجحان انیس سو پچھتر میں اپنے عروج پر نظر آتا ہے، جب صرف ایک سال کے دوران ایک سو چودہ پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں۔
 انیس سو سترکی دہائی کے آخر میں اس وقت پاکستان فلموں پر زوال آنا شروع ہوا،جب ملک پر جنرل ضیا کی آمریت قائم ہوئی اور ملک میں وی سی آر متعارف ہوا۔
 سن ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں نہایت پُرکشش سمجھی جانے والی پاکستانی فلم انڈسٹری اس وقت تقریباًاپنی موت آپ مرچکی ہے۔
انیس سو ستر کی دہائی میں، مارشل آرٹس کے ماہر اور مشہور اداکار بروس لی کاہاتھ سے تیار کردہ شاندار کلاسیکی بِل بورڈ۔
نیس سو تہتر میں بروس لی کی ’کھڑکی توڑ‘ فلم ’اینٹر دی ڈریگون ‘ کی پاکستان میں نمائش کے موقع پر یہ بِل بورڈ لاہور میں تیار کیا گیا تھا۔ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی، بروس لی ایکشن فلموں کے شائقین میں بہت مشہور تھے۔
 ان کی فلمیں پاکستان میں باکس آفس پر شاندار بزنس کرتی تھیں۔ ان فلموں نے پاکستانیوں کو مارشل آرٹس سے بھی متعارف کرایا۔ انیس سو تہترمیں بروس لی کو اچانک موت نے آ گھیرا اور وہ دنیا سے چلے گئے۔
انیس سو اکہترمیں ہاکی ورلڈ کپ فائنل کی نایاب تصویر۔ اسپین کے شہر بارسلونا میں منعقدہ ہاکی ورلڈ کپ کے فائنل میں پاکستان نے میزبان ٹیم کو شکست دے کر اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
انیس سو تہترمیں کوئٹہ ائیرپورٹ پر ایرانی ملکہ فرح دیبا کی آمد کا منظر۔ دائیں بازو کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی (نیپ) کی حکومت کے اُس وقت کے گورنر خیر بخش بزنجو ان کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ انیس سو سترکے انتخابات کے بعد نیپ نے بلوچستان میں حکومت بنائی تھی۔
بدقسمتی سے وزیرِ اعظم بھٹو نے شاہ ایران کی ایک شکایت پربلوچستان میں جناب بزنجو اور نیپ حکومت کو برطرف کردیا تھا۔
 کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ ایران نے جناب بھٹو کو خبردار کیا تھا کہ صوبائی حکومت ایرانی بلوچستان میں بلوچ قوم پرست باغیوں کو شاہ کے خلاف بغاوت پر اُکسارہی ہے۔
انیس سو چوہتر میں اکیس سالہ بینظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی کراچی میں واقع رہائش گاہ کے پورچ میں بیٹھی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے جب اپریل ۱۹۷۹ میں جناب بھٹو کو پھانسی دی تو بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔
دسمبردو ہزار سات میں اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں دہشت گرد حملے میں جان گنوانے سے پہلے وہ سن نوّے کی دہائی میں دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔
مئی انیس سو بہترکے ماہنامہ ہیرالڈ کے سرورق کا عکس۔ ڈان گروپ کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والا ماہنامہ ہیرالڈ ابتدا میں بدلتے فیشن اور شہری نوجوانوں کے سیاسی و سماجی رجحانات پر توجہ مرکوز رکھتا تھا۔
بعد ازاں، انیس سو اسی کے بعد سے لے کر اب تک، ماہنامہ کا متن زیادہ تر سیاسی نوعیت کے امور کا احاطہ کرتا ہے۔
انیس سو تہترکے ماہنامہ ہیرالڈ کے ایک شمارے کے سرورق کا عکس، یہ منظر کراچی کی پُرجوش اور بھڑکیلی زندگی کا عکاس بن تھا۔
انیس سو بہترمیں پاکستان کی معروف فیشن ماڈل رخشندہ خٹک کی، فیشن شو میں لی گئی یادگار تصویر۔ سن ستّر کی دہائی میں رخشندہ ملک کی صفِ اول کی فیشن ماڈل تھیں۔
 انیس سو اناسی میں انہوں نے ماڈلنگ اور مُلک، دونوں کو خیرباد کہا۔ رخشندہ خٹک ۲۰۱۱ میں امریکا میں انتقال کر گئیں۔ تصویر بشکریہ ایکسپریس ٹریبون
انیس سو تہتر میں پاکستانی فلموں کی معروف گلوکارہ اور پاپ موسیقی کی علامت سمجھی جانے والی رونا لیلیٰ کے موسیقی البم کا سرِ ورق۔ بعد میں یہ سرورق پوسٹر کی شکل میں ہاسٹلوں میں مقیم طلبا کے کمروں کی دیواروں پر چی گویرا اور ماؤزے تنگ جیسے انقلابی رہنماؤں کی تصاویر کے ساتھ چسپاں نظر آتا تھا۔
لیلیٰ مشرقی پاکستان سے تعلقرکھتی تھیں مگر بنگلا دیش کے قیام باوجود وہ اگلے کئی سال پاکستان میں رہیں۔انیس سو چوہترمیں انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور بنگلا دیش کی شہریت حاصل کرکے وہیں سکونت اختیار کرلی۔
 
انیس سو بہتر میں پاکستانی ٹیلی وژن پی ٹی وی سے نشر ہونے والے ایک گیت کی جھلک، جس سے وہ پاکستان کی جدید موسیقی کی ایک علامت بن کر سامنے آئیں۔
[You must be registered and logged in to see this image.]
انیس سو پچہترمیں ریلیز ہونے والی فلم شبانہ کے گیتوں پر مشتمل ریکارڈ کے سرورق کا عکس۔ اس فلم میں پاکستانی اداکارہ بابرہ شریف نے کام کیا تھاجو بعد صفِ اول کی ہیروئن اور ستّر کی دہائی کی فلموں میں سیکس سمبل کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔
انیس سو پچہترمیں شائع ہونے والا ایک پوسٹر، جس میں سندھی، بلوچی، پشتو اور پنجابی لوک پرفامرز کو دکھایا گیا ہے۔ یہ پوسٹر امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں منعقدہ ’امریکن فوک لائف کنسرٹ ‘ کے موقع پروہیں طبع اور شائع ہوا تھا۔ اس کنسرٹ میں پاکستانی لوک فنکار فن کا جوہر دکھانے کے لیے مدعو کیے گئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی مقبول ترین حکومت میں پاکستانی لوک ثقافت اور موسیقی کو بھرپور سرکاری سرپرستی حاصل رہی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ اس حکومتی حکمتِ عملی کا کم از کم ایک حصہ تھا جس کے ذریعے وہ سندھی، بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کو مفاہمت کے ذریعے قومی دھارے میں لانا چاہتے تھے۔
انیس سو پچہترمیں پشاور کے ایک کم درجے کے ہوٹل کے برآمدے میں موجود غیر ملکی جوڑا۔ ساٹھ کی دہائی سے پیٹھ پر تھیلے لاد کر، پاکستان کارخ کرنے والے مغربی سیاحوں کے ریلے کی وجہ سے  لاہور، کراچی اور پشاور میں اس طرح کے ہوٹلو ں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔
اس بات کی وضاحت کرنا ممکن نہیں کہ مرد نے گلے میں ہولسٹر کیوں لٹکایا ہوا ہے۔ البتہ اکثر اوقات یہ خالی ہوتے تھے، صرف پشاوری فیشن کا دکھاوا۔
ستّر کے عشرے کی معروف ایرانی گلوکارہ اور پاپ میوزک کی شناخت میڈم گوگوش فارسی رسالے’ بی تا‘ کے سرورق پر۔ گوگوش نے انیس سو پچہترمیں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے متعدد بڑے کنسرٹ کیے۔ کئی پی ٹی وی پر نشر ہوئے۔ جن سے انہیں یہاں بہت پذیرائی ملی۔
میڈم گوگوش ایک بار پھر پاکستان آکر کنسرٹ سیریز کرنا چاہتی تھیں مگر انیس سو اناسی میں ، ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد حکومت نے ان پر پابندی عائد کردی اور گوگوش کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔
انیس سو چہتر میں، پاکستان کرکٹ ٹیم کے بعض کھلاڑی نائٹ کلب میں خوش گوار وقت گزارتے ہوئے۔ تصویر میں دائیں سے وسیم راجا، اوپنر مدثر نذر، فاسٹ بولر سکندر بخت اور بیٹسمین جاوید میاں داد۔
پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والی اس تصویر کے کیپشن کے انداز اور الفاظ پہ غور کیجیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اسی کی دہائی کے اوائل میں یہ لب و لہجہ بدل گیا تھا۔ اس طرح پارٹی کرنے والے کرکٹرز کے لیے (زیادہ تر اردو اخبارات میں) مذمتی انداز اور الفاظ استعمال ہونے لگے تھے۔
سندھی قوم پرستوں کے شائع کردہ ایک پوسٹر کا عکس۔ یہ پوسٹر سب سے پہلے انیس سو تہتر میں سندھی قوم پرست جماعت ’جئے سندھ‘ کے قیام کے فوراً بعد شائع کیا گیا تھا۔
اس پوسٹر کے ذریعے سندھی قوم کے سیکولر رویے، حقیقت پسندی، رواداری اور صوفی اسلام سے ان کے رشتےکو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
انیس سو پچہتر میں، پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کی اہلیہ اور ملک کی خاتونِ اوّل بیگم نصرت بھٹو میکسیکو میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شریک ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وہ اپنے ’سوشلسٹ ‘شوہر ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ ترقی پسند تھیں۔
انیس سو چوہترمیں مشہور پاکستانی کرکٹر عمران خان، جو سن ستّر کی دہائی کے نوجوانوں کے پسندیدہ ’فیشنی ‘کپڑوں میں ملبوس ہیں۔
کبھی ’پلے بوائے‘ کے لقب سے معروف خان نے نوّے کی دہائی میں کرکٹ سے علیحدگی کے بعد’تجدیدِ ایمان‘ کی اور دوبارہ بطور مسلم  دنیا میں آئے۔اس کے بعد انیس سو نوے میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی۔
 ۱۹۸۷ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان رجعت پسند فوجی آمر ضیاء الحق کے ساتھ بیٹھے ہوئے۔ عمران خان نے ۱۹۸۷ میں ہی پاکستانی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا مگر جنرل ضیا بدستور انہیں ٹیم میں واپس لانے کے لیے بہلاتے پھسلاتے رہے۔
ستّر اور اسّی کی دہائی میں پاکستان کے اکثر بڑے بڑے کرکٹ اسٹار کی سیاسی وابستگی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے کسی سیاسی جماعت سے براہ راست وابستگی اختیار نہیں کی تھی۔ مثال کے طور پر فاسٹ بولر سرفراز نواز، سابق کپتان مشتاق محمد اور جاوید میاں داد بھٹو کے پرستار تھے۔
اگرچہ عمران خان کا جنرل ضیا کی رجعت پسند پالیسیوں کی طرف جھکاؤ نہیں تھا مگر اس کے باوجود ان کے فوجی آمر سے قریبی مراسم تھے۔
انیس سو چہتر کا ایک منظر، پاکستانی پاپ اسٹار عالمگیر مشہور ٹی وی اداکار اور کامیڈین مرحوم معین اختر کو لطیفہ سنارہے ہیں۔ یہ تصویر کراچی میں عالمگیر کے اُس کنسرٹ سے ذراپہلے لی گئی، جس کی میزبانی معین اختر نے کی تھی۔
 
انیس سو پچہتر- چہترکی ایک کی نایاب وڈیو سے جھلک، جس میں عالمگیر، تُرک پاپ سنگر کے ساتھ پی ٹی وی پر پرفارم کررہے ہیں۔ انیس سو اٹھترمیں ضیا آمریت کے دور میں اس گانے پر پابندی لگادی گئی تھی۔
انیس سو پچھتر میں پاکستانی ٹیلی وژن اداکار سبحانی بایونس، شکیل احمد اور آر جے ایک ٹی وی ڈرامے کے سیٹ پر۔ سبحانی اسٹیج کے منجھے اداکار تھے مگر شکیل اُن دنوں ابھرتے ٹی وی اداکار تھے۔
انیس سو چہتر میں کراچی انٹرکونٹیننٹل ہوٹل کے سوئمنگ پول کنارے مغربی سیاح بیئر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔  تصویر بشکریہ رورے مکلین
انیس سو چہتر میں مغربی سیاحوں کا ایک گروپ ریل گاڑی سے کراچی تا لاہور سفر کے دوران۔ تصویر بشکریہ مراد حسین اور بینا احمد۔
انیس سو چہتر میں کالج کے باہر بنچ پر بیٹھی چند طالبات موج مستی کرتے ہوئے۔
 
انیس سو اٹھتر میں کراچی میں کھیلے گئے پاکستان بمقابلہ ہندوستان کرکٹ ٹیسٹ میچ کی نایاب فوٹیج۔ یقینی طور پر ڈرا کی جانب گامزن اس میچ میں سنسنی اس وقت بیدار ہو گئی جب پاکستان کے کپتان مشتاق احمد نے آخری سیشن میں پچیس اوورز میں 160 رنز سے زائد کا ناممکن سمجھا جانے والے ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔
یس سالہ جاوید میانداد اور نائب کپتان آصف اقبال کو بطور اوپنر بھیجا گیا۔ وکٹ کے درمیان رنز لینے کے حیرت انگیز مظاہرے کے باوجود،  پاکستان کو فی اووَر آٹھ رنز سے زائد اوسط درکار تھی کہ اس وقت اقبال آؤٹ ہوگئے۔
 تب مشتاق نے رن ریٹ آگے بڑھانے کے لیے چھبیس سالہ عمران خان کو بھیجا۔ ابتدا ہی میں رن آؤٹ سے بچنے والے خان نے ہندوستانی باؤلنگ کو آڑھے ہاتھوں لیا اور دو چھکوں اور چار چوکے لگا کا پاکستان کو فتحیاب کر دیا۔
[You must be registered and logged in to see this image.]
انیس سو ستتر میں مارشل لا کے نفاذ پر روزنامہ ڈان کی خبر اور سرخی کا عکس۔ ’اگلے اکتوبر‘ تک انتخابات نہیں ہوسکتے، یہ کہہ کر جنرل ضیا ء الحق نے تقریباً گیارہ برس ملک پر حکمرانی کی لیکن اُس کے بعد پاکستان پھر کبھی ایسا نہ بن سکا۔
:شئیر کریں
modi
modi
Monstars
Monstars

Virgo Cat
Posts : 632
Join date : 2011-02-13
Age : 36
Location : OnLion
Sporty

Character sheet
Experience:
پاکستان کی داستانِ ہوش رُبا۔ پاکستان کبھی ایسا بھی ہوتا تھا Left_bar_bleue0/500پاکستان کی داستانِ ہوش رُبا۔ پاکستان کبھی ایسا بھی ہوتا تھا Empty_bar_bleue  (0/500)

Back to top Go down

View previous topic View next topic Back to top

- Similar topics

Permissions in this forum:
You cannot reply to topics in this forum